Cyber Crime Ordinace
Page 1 of 1
Cyber Crime Ordinace
صدر آصف علی زرداری نے سائبر کرائمز سے متعلق اس قانون کی تجدید کردی ہے جو ملک کے سابق فوجی صدر پرویز مشرف نے جاری کیا تھا۔
پریوینشن
آف الیکٹرانک کرائمز آرڈیننس نامی اس قانون کے تحت بغیر اجازت کسی کی
تصویر کھینچنا، انٹرنیٹ یا موبائل کی مدد سے کسی کو ایسا پیغام بھیجنا جسے
ناپسندیدہ، غیراخلاقی یا بے ہودہ سمجھا جائے، جرم قرار دیا گیا ہے اور
اسکے سات سال قید یا تین لاکھ روپے جرمانے یا دونوں کی سزا مقرر کی گئی
ہے۔
اسکے علاوہ
اس قانون میں مہلک ہتھیاروں کے بارے میں انٹرنیٹ سے خفیہ معلومات نقل کرنے
یا چرانے کو بھی جرم قرار دیا گیا ہے اور اسے سائبر ٹیررازم کے زمرے میں
رکھا گیا ہے جس کی سزا دس سال قید اور ایک کروڑ روپے جرمانے یا دونوں کی
سزا مقرر کی گئی ہے۔
پریوینشن آف الیکٹرانک کرائمز آرڈیننس کا مسودہ نفاذ سے پہلے ہی متنازعہ بن گیا تھا اور اس پر انفارمیشن ٹیکنالوجی کی صنعت سے
وابستہ افراد، قانونی ماہرین اور انسانی حقوق کے کارکنوں نے سخت اعتراضات کیے تھے۔
تاہم
سابق صدر پرویز مشرف نے پچھلے سال دسمبر میں یہ آرڈیننس نافذ کردیا تھا
اور اسکا انکشاف اس وقت ہوا تھا جب انفارمیشن ٹیکنالوجی کے نگراں وفاقی
وزیر ڈاکٹر عبداللہ ریاڑ نے دس جنوری 2008ء کو اسلام آباد میں ایک پریس
کانفرنس میں صحافیوں کو بتایا تھا کہ آرڈیننس اکتیس دسمبر 2007ء سے نافذ
العمل ہوچکا ہے
۔
پریوینشن
آف الیکٹرانک کرائمز آرڈیننس نامی اس قانون کے تحت بغیر اجازت کسی کی
تصویر کھینچنا، انٹرنیٹ یا موبائل کی مدد سے کسی کو ایسا پیغام بھیجنا جسے
ناپسندیدہ، غیراخلاقی یا بے ہودہ سمجھا جائے، جرم قرار دیا گیا ہے اور
اسکے سات سال قید یا تین لاکھ روپے جرمانے یا دونوں کی سزا مقرر کی گئی
ہے۔
اسکے علاوہ
اس قانون میں مہلک ہتھیاروں کے بارے میں انٹرنیٹ سے خفیہ معلومات نقل کرنے
یا چرانے کو بھی جرم قرار دیا گیا ہے اور اسے سائبر ٹیررازم کے زمرے میں
رکھا گیا ہے جس کی سزا دس سال قید اور ایک کروڑ روپے جرمانے یا دونوں کی
سزا مقرر کی گئی ہے۔
پریوینشن آف الیکٹرانک کرائمز آرڈیننس کا مسودہ نفاذ سے پہلے ہی متنازعہ بن گیا تھا اور اس پر انفارمیشن ٹیکنالوجی کی صنعت سے
وابستہ افراد، قانونی ماہرین اور انسانی حقوق کے کارکنوں نے سخت اعتراضات کیے تھے۔
تاہم
سابق صدر پرویز مشرف نے پچھلے سال دسمبر میں یہ آرڈیننس نافذ کردیا تھا
اور اسکا انکشاف اس وقت ہوا تھا جب انفارمیشن ٹیکنالوجی کے نگراں وفاقی
وزیر ڈاکٹر عبداللہ ریاڑ نے دس جنوری 2008ء کو اسلام آباد میں ایک پریس
کانفرنس میں صحافیوں کو بتایا تھا کہ آرڈیننس اکتیس دسمبر 2007ء سے نافذ
العمل ہوچکا ہے
۔
Re: Cyber Crime Ordinace
اس وقت کی حکومت کا کہنا تھا کہ اس قانون کا مقصد
دوسرے ملکوں کی طرح پاکستان کو انٹرنیٹ کے ذریعے ہونے والے جرائم کی روک
تھام کے لیے قوانین سے لیس کرنا ہے لیکن انفارمیشن ٹیکنالوجی کی صنعت سے
وابستہ افراد، قانونی ماہرین اور انسانی حقوق کے کارکنوں نے خدشہ ظاہر کیا
تھا کہ اس قانون کا کسی کے بھی خلاف غلط استعمال کیا جاسکتا ہے کیونکہ
قانون مبہم ہے اور اس میں جرائم کی پوری طرح وضاحت نہیں کی گئی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس کا اطلاق انٹرنیٹ ہی نہیں بلکہ تصویر کشی اور پیغام رسانی کے لیے استعمال ہونے والے تمام برقی آلات مثلاً
کیمرہ، موبائل فون وغیرہ کے استعمال پر بھی ہوگا۔
موجودہ حکومت کی جانب سے آرڈیننس کے مسودے میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی ہے بلکہ مبصرین کے بقول صرف صدر کے نام اور دستخط کا فرق
ہے۔
آرڈیننس
میں 21 مختلف جرائم کی نشاندہی کی گئی ہے اور ان کے لیے سخت سزائیں تجویز
کی گئی ہیں جن میں تین ماہ سے لیکر دس سال قید، بھاری جرمانے، عمر قید کے
علاوہ موت کی سزا بھی شامل ہیں جبکہ کسی کو سپیم ای میل (ایسی ای میل جس
کی وصول کرنے والے نے خواہش نہ کی ہو) بھیجنے کی سزا پچاس ہزار روپے
جرمانے سے لیکر تین ماہ قید مقرر کی گئی ہے۔
قانون جن جرائم کی نشاندہی کرتا ہے اس کے مطابق ان میں کئی ایک ناقابل ضمانت ہوں گے مثلاً کسی کمپیوٹر سسٹم کو نقصان پہنچانا وغیرہ۔
اس
قانون پر عملدرآمد کا اختیار فیڈرل انویسٹیگیشن ایجنسی (ایف آئی اے) کو
دیا گیا ہے جو کسی بھی مشکوک شخص یا ادارے کا کمپیوٹر سسٹم، لیپ ٹاپ،
موبائل فون، کیمرہ وغیرہ شک کی بنیاد پر اپنی تحویل میں لے سکتی ہے اور
اسے گرفتار بھی کرسکتی ہے۔ قانونی ماہرین کے مطابق اس قانون میں ایف آئی
اے کو لامحدود اختیارات دیے گئے ہیں جن کے غلط استعمال کا خدشہ ہے۔
آرڈیننس کے مطابق اس کے تحت قائم ہونے والے مقدمات کی سماعت سات رکنی ٹریبونل کرے گا اور اس کے فیصلے کے خلاف صرف ہائی کورٹ اور
پھر سپریم کورٹ میں اپیل داخل کی جاسکے گی
۔
Page 1 of 1
Permissions in this forum:
You cannot reply to topics in this forum
|
|