Robots Jin mai Insani Demagh Nasb Hai
Page 1 of 1
Robots Jin mai Insani Demagh Nasb Hai
روبوٹ جس میں زندہ دماغ نصب ہے
برطانیہ کی ریڈنگ یونیورسٹی میں متعدد طبی سائنس دان اور انجنیئرز پر مشتمل ماہرین کی ایک ٹیم ایک ایسا روبوٹ تیار کرنے میں کامیاب ہوگئی ہے جس میں ایک زندہ دماغ نصب ہے۔ اسے سائنسی تاریخ کا اہم کارنامہ قرار دیا جارہا ہےاور یہ کہا جارہا ہے کہ اس روبوٹ کی مدد سے اس بارے میں مفید معلومات حاصل ہوسکیں گی کہ انسانی دماغ کس طرح کام کرتا ہے، مختلف چیزوں کو اپنی یادداشت میں کس طرح محفوظ رکھتا ہے اور اسے طرح عمل میں لاتا ہے۔
اس روبوٹ میں جو دماغ نصب ہے اسےنیورانز یعنی زندہ دماغی خلیوں کے ساتھ مصنوعی طریقے سے بنایا گیا ہے۔
یہ زندہ دماغ کئی برقی تاروں سے منسلک ایک خاص قسم کی پلیٹ پر نصب ہے۔اس پلیٹ میں، جسے ایم ای اے یعنی ملٹی الیکٹروڈ ایری کا نام دیا ہے، تقریباً 60 الیکٹروڈ ہیں جو دماغ کے خلیوں میں پیدا ہونے والے سگنلز یا پیغامات وصول کرتے ہیں۔ان سگنلز کی مدد سے روبوٹ کو حرکت دی جاتی ہے یا اس کی حرکت تبدیل یا اسے کنٹرول کیا جاتا ہے۔
برطانیہ کی ریڈنگ یونیورسٹی میں متعدد طبی سائنس دان اور انجنیئرز پر مشتمل ماہرین کی ایک ٹیم ایک ایسا روبوٹ تیار کرنے میں کامیاب ہوگئی ہے جس میں ایک زندہ دماغ نصب ہے۔ اسے سائنسی تاریخ کا اہم کارنامہ قرار دیا جارہا ہےاور یہ کہا جارہا ہے کہ اس روبوٹ کی مدد سے اس بارے میں مفید معلومات حاصل ہوسکیں گی کہ انسانی دماغ کس طرح کام کرتا ہے، مختلف چیزوں کو اپنی یادداشت میں کس طرح محفوظ رکھتا ہے اور اسے طرح عمل میں لاتا ہے۔
اس روبوٹ میں جو دماغ نصب ہے اسےنیورانز یعنی زندہ دماغی خلیوں کے ساتھ مصنوعی طریقے سے بنایا گیا ہے۔
یہ زندہ دماغ کئی برقی تاروں سے منسلک ایک خاص قسم کی پلیٹ پر نصب ہے۔اس پلیٹ میں، جسے ایم ای اے یعنی ملٹی الیکٹروڈ ایری کا نام دیا ہے، تقریباً 60 الیکٹروڈ ہیں جو دماغ کے خلیوں میں پیدا ہونے والے سگنلز یا پیغامات وصول کرتے ہیں۔ان سگنلز کی مدد سے روبوٹ کو حرکت دی جاتی ہے یا اس کی حرکت تبدیل یا اسے کنٹرول کیا جاتا ہے۔
Last edited by tanbukhari on Tue Sep 16, 2008 2:48 pm; edited 2 times in total
Re: Robots Jin mai Insani Demagh Nasb Hai
زندہ دماغ کےاس روبوٹ پر اب تک جو تجربات کیے گئے ہیں، ان کے بہت مفید اور دلچسپ نتائج سامنے آئے ہیں۔ مثلاً جب روبوٹ کسی چیز کے بہت قریب گیا اور محسوس کرنے والے آلات نے اس کی اطلاع الیکٹروڈز کے ذریعے دماغ تک پہنچائی تو اس کے جواب میں دماغ نےراستے میں حائل رکاوٹ سے بچنے کے لیے فوری طور پر روبوٹ کے پہیوں کبھی دائیں اور کبھی بائیں جانب مڑنے کی ہدایت کی تاکہ وہ اس سے ٹکرا نہ جائے۔
عام روبوٹس کو کنٹرول کرنے کے لیے اس میں عام طورپر کمپیوٹر کا استعمال کیا جاتا ہے یا اسے بعض ہدایات انسان فراہم کرتا ہے جبکہ اس روبوٹ کا مکمل کنٹرول اس کے اپنے زندہ دماغ کے پاس ہے۔
ماہرین اس روبوٹ پرمسلسل تجربے کررہے ہیں۔ ان تجربات کے دوران روبوٹ کو پہلے سے طے کردہ اہداف کی جانب حرکت دی جاتی ہے اور جب وہ ان کی جانب بڑھتا ہے تو دماغ کو مختلف سگنلز بھیجے جاتےہیں تاکہ وہ انہیں سیکھنے کی کوشش کرے۔ یہ تقریباً ایک ایسا ہی عمل ہے جیسے کہ ایک بچہ سیکھتا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ جیسے جیسے سیکھنے کا عمل آگے بڑھے گا، روبوٹ کی یاداشت بھی اضافہ ہوگا جس سے ماہرین کو یہ جاننے میں آسانی ہوگی کہ جب روبوٹ ان جگہوں پر دوبارہ جاتا ہے جوپہلے اس کے مشاہدے میں آچکی ہیں تو اس کے دماغ کی یاداشت کس طرح کا ردعمل کرتی ہے۔
ریڈنگ یونیورسٹی کے شعبہ انجنیئرنگ کے پروفیسر کیون وار وک کا کہنا ہے کہ ہمارے لیے یہ بہت ہی پرجوش تجربہ ہے کیونکہ ہم نے ایک ایسا روبوٹ بنایا ہے جس میں ایک زندہ دماغ ہے اور وہ اپنے جسم کو مکمل طورپر خود کنٹرول کررہا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ ہمیں اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوا ہے کہ ہمیں یہ جاننے میں مدد مل رہی ہے کہ دماغ کس طرح سیکھتا ہے اور اپنے مشاہدات اور تجربات سے متعلق یاداشتوں کو کس طرح استعمال میں لاتا ہے۔
عام روبوٹس کو کنٹرول کرنے کے لیے اس میں عام طورپر کمپیوٹر کا استعمال کیا جاتا ہے یا اسے بعض ہدایات انسان فراہم کرتا ہے جبکہ اس روبوٹ کا مکمل کنٹرول اس کے اپنے زندہ دماغ کے پاس ہے۔
ماہرین اس روبوٹ پرمسلسل تجربے کررہے ہیں۔ ان تجربات کے دوران روبوٹ کو پہلے سے طے کردہ اہداف کی جانب حرکت دی جاتی ہے اور جب وہ ان کی جانب بڑھتا ہے تو دماغ کو مختلف سگنلز بھیجے جاتےہیں تاکہ وہ انہیں سیکھنے کی کوشش کرے۔ یہ تقریباً ایک ایسا ہی عمل ہے جیسے کہ ایک بچہ سیکھتا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ جیسے جیسے سیکھنے کا عمل آگے بڑھے گا، روبوٹ کی یاداشت بھی اضافہ ہوگا جس سے ماہرین کو یہ جاننے میں آسانی ہوگی کہ جب روبوٹ ان جگہوں پر دوبارہ جاتا ہے جوپہلے اس کے مشاہدے میں آچکی ہیں تو اس کے دماغ کی یاداشت کس طرح کا ردعمل کرتی ہے۔
ریڈنگ یونیورسٹی کے شعبہ انجنیئرنگ کے پروفیسر کیون وار وک کا کہنا ہے کہ ہمارے لیے یہ بہت ہی پرجوش تجربہ ہے کیونکہ ہم نے ایک ایسا روبوٹ بنایا ہے جس میں ایک زندہ دماغ ہے اور وہ اپنے جسم کو مکمل طورپر خود کنٹرول کررہا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ ہمیں اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوا ہے کہ ہمیں یہ جاننے میں مدد مل رہی ہے کہ دماغ کس طرح سیکھتا ہے اور اپنے مشاہدات اور تجربات سے متعلق یاداشتوں کو کس طرح استعمال میں لاتا ہے۔
Re: Robots Jin mai Insani Demagh Nasb Hai
ماہرین کا کہنا ہے کہ زندہ دماغ رکھنے والے روبوٹ پر کیے جانے والے تجربات سے طب، سائنس، انجنیئرنگ اور دوسرے کئی شعبوں کو فائدہ پہنچے گا۔
طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ اس روبوٹ پر کیے جانے والے تجربات مختلف دماغی امراض، بالحضوص الزائمر کے اسباب کو سمجھنے اور اس کے علاج کی مدد میں بہت فائدہ مند ثابت ہوسکتے ہیں۔
یورنیورسٹی کے سکول آف فارمیسی کے ڈاکٹر بن ویلی کا کہنا ہے کہ آج کے سائنس دانوں کے سامنے سب سے بنیادی سوال یہ ہے دماغ کے خلیے انفرادی طورپر جس طرح کے پیچیدہ ردعمل کااظہار کرتے ہیں وہ کم وبیش تمام جانداروں میں تقریباً ایک جیسا کیوں ہوتا ہے۔طویل عرصے تک تجربات کے باوجود اس سوال کا کوئی حتمی جواب تلاش نہیں کیا جاسکا۔ ڈاکٹر ویلی کو توقع ہے کہ زندہ دماغ کے روبوٹ سے اس بنیادی سوال کے حقیقی جواب تک پہنچے میں مدد ملے گی۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اسے روبوٹس کی ایک نئی نسل قرار دیا جاسکتا ہے جو پچھلی نسل سے اس لیے مختلف ہیں کہ انہیں بیرونی ذریعے سے کنٹرول کرنے اور ہدایات دینے کی ضرورت نہیں ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ مستقبل میں اس نسل کے ترقی یافتہ روبوٹ ہمارے گھروں اور دفتروں کی بہت سی ذمہ داریاں سنبھال لیں گے اور انہیں کچھ بتانے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔
طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ اس روبوٹ پر کیے جانے والے تجربات مختلف دماغی امراض، بالحضوص الزائمر کے اسباب کو سمجھنے اور اس کے علاج کی مدد میں بہت فائدہ مند ثابت ہوسکتے ہیں۔
یورنیورسٹی کے سکول آف فارمیسی کے ڈاکٹر بن ویلی کا کہنا ہے کہ آج کے سائنس دانوں کے سامنے سب سے بنیادی سوال یہ ہے دماغ کے خلیے انفرادی طورپر جس طرح کے پیچیدہ ردعمل کااظہار کرتے ہیں وہ کم وبیش تمام جانداروں میں تقریباً ایک جیسا کیوں ہوتا ہے۔طویل عرصے تک تجربات کے باوجود اس سوال کا کوئی حتمی جواب تلاش نہیں کیا جاسکا۔ ڈاکٹر ویلی کو توقع ہے کہ زندہ دماغ کے روبوٹ سے اس بنیادی سوال کے حقیقی جواب تک پہنچے میں مدد ملے گی۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اسے روبوٹس کی ایک نئی نسل قرار دیا جاسکتا ہے جو پچھلی نسل سے اس لیے مختلف ہیں کہ انہیں بیرونی ذریعے سے کنٹرول کرنے اور ہدایات دینے کی ضرورت نہیں ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ مستقبل میں اس نسل کے ترقی یافتہ روبوٹ ہمارے گھروں اور دفتروں کی بہت سی ذمہ داریاں سنبھال لیں گے اور انہیں کچھ بتانے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔
Page 1 of 1
Permissions in this forum:
You cannot reply to topics in this forum
|
|