Urdu Forum- Pakistan
Would you like to react to this message? Create an account in a few clicks or log in to continue.

Daily 3 Ayats Tafseer

Go down

Daily 3 Ayats Tafseer Empty Daily 3 Ayats Tafseer

Post by sirfaheem Fri Aug 20, 2010 7:35 pm

[right]بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیۡمِ

اللہ کے نام سے شروع جو نہایت مہربان رحم والا
Allah in the name of the Most Affectionate, the Merciful.

Alhamdolillah Faiznaeraza.org Starts the Daily 3 Ayats Tafseer and Translation join for daily subsribe ur mail on www.faizaneraza.org or read in this section .

سورۃ البقرۃ

الم *[2-1]

الم (ف۲)

1. Alif-Lam Mim (Individual Letters of Arabic Alphabet)

ذَلِكَ الْكِتَابُ لاَ رَيْبَ فِيهِ هُدًى لِّلْمُتَّقِينَ *[2-2]
وہ بلند رتبہ کتاب (قرآن) کوئی شک کی جگہ نہیں، (ف ۳) اس میں ہدایت ہے ڈر والوں کو (ف۴)

2.2. That high ranked Book (Quran) whereof there is no place of doubt, in
it there is guidance to the God-fearing.

الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ وَيُقِيمُونَ الصَّلاةَ وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنفِقُونَ *[2-3]
وہ جو بے دیکھے ایمان لائیں (ف۵) اور نماز قائم رکھیں (ف۶) اور ہماری دی ہوئی روزی میں سے ہماری میں اٹھائیں- (ف۷)


3. Who believe without seeing, and establish prayer and spend in Our
path, out of Our provided subsistence.


Tafseer of 3 Ayats



(ف1)

سورۂ بقرہ یہ سورت مدنی ہے ۔ حضرت ابنِ عباس رضی اللّٰہ تعالٰی عنہما نے فرمایا مدینہ طیّبہ میں سب سے پہلے یہی سورت نازل ہوئی سوائے آیت '' وَاتَّقُوْا یَوْماً تُرْجَعُوْنَ '' کے کہ حجِ وَداع میں بمقام مکّہ مکرّمہ نازل ہوئی ۔ (خازن) اس سورت میں دو سو چھیاسی آیتیں چالیس رکوع چھ ہزار ایک سو اکیس کلمے پچیس ہزار پانچ سو حرف ہیں ۔ (خازن) پہلے قرآنِ پاک میں سورتوں کے نام نہ لکھے جاتے تھے ، یہ طریقہ حجّاج نے نکالا ۔ ابنِ عربی کا قول ہے کہ سورۂ بقر میں ہزار امر ، ہزار نہی ، ہزار حکم ، ہزار خبریں ہیں ، اس کے اخذ میں برکت ، ترک میں حسرت ہے ، اہلِ باطل جادو گر اس کی استطاعت نہیں رکھتے ، جس گھر میں یہ سورت پڑھی جائے تین دن تک سرکش شیطان اس میں داخل نہیں ہوتا ۔ مسلم شریف کی حدیث میں ہے کہ شیطان اس گھر سے بھاگتا ہے جس میں یہ سورت پڑھی جائے ۔ (جمل) بیہقی و سعید بن منصور نے حضرت مغیرہ سے روایت کی کہ جو شخص سوتے وقت سورۂ بقرکی دس آیتیں پڑھے گا قرآن شریف کو نہ بھولے گا ، وہ آیتیں یہ ہیں چار آیتیں اوّل کی اور آیت الکرسی اور دو اس کے بعد کی اور تین آخر سورت کی ۔
مسئلہ : طبرانی وبیہقی نے حضرت ابنِ عمر رضی اللّٰہ تعالٰی عنہما سے روایت کی کہ حضور علیہ الصلٰوۃ والسلام نے فرمایا میت کو دفن کر کے قبر کے سرہانے سورۂ بقر کے اول کی آیتیں اور پاؤں کی طرف آخر کی آیتیں پڑھو ۔
شانِ نُزول : اللّٰہ تعالٰی نے اپنے حبیب صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم سے ایک ایسی کتاب نازل فرمانے کا وعدہ فرمایا تھا جو نہ پانی سے دھو کر مٹائی جا سکے نہ پرانی ہو ، جب قرآنِ پاک نازل ہوا تو فرمایا ''ذٰلِکَ الْکِتٰبُ '' کہ وہ کتابِ موعود یہ ہے ۔ ایک قول یہ ہے کہ اللّٰہ تعالٰی نے بنی اسرائیل سے ایک کتاب نازل فرمانے اور بنی اسمٰعیل میں سے ایک رسول بھیجنے کا وعدہ فرمایا تھا ، جب حضور نے مدینہ طیّبہ کو ہجرت فرمائی جہاں یہود بکثرت تھے تو ''الۤمّۤ ذٰلِکَ الْکِتٰبُ '' نازل فرما کر اس وعدے کے پورے ہونے کی خبر دی ۔ (خازن)

(ف2)

''الٓمّٓۤ ''سورتوں کے اول جو حروفِ مقطّعہ آتے ہیں ان کی نسبت قولِ راجح یہی ہے کہ وہ اَسرارِ الٰہی اور متشابہات سے ہیں ، ان کی مراد اللّٰہ اور رسول جانیں ہم اس کے حق ہونے پر ایمان لاتے ہیں



(ف3)

اس لئے کہ شک اس میں ہوتا ہے جس پر دلیل نہ ہو ، قرآنِ پاک ایسی واضح اور قوی دلیلیں رکھتا ہے جو عاقلِ مُنْصِف کو اس کے کتابِ الٰہی اور حق ہونے کے یقین پر مجبور کرتی ہیں تو یہ کتاب کسی طرح قابلِ شک نہیں جس طرح اندھے کے انکار سے آفتاب کا وجود مشتبہ نہیں ہوتا ایسے ہی مُعانِدِ سیاہ دل کے شک و انکار سے یہ کتاب مشکوک نہیں ہو سکتی ۔
(ف4)

'' ھُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَ '' اگرچہ قرآنِ کریم کی ہدایت ہر ناظرکے لئے عام ہے ، مومن ہو یا کافِر جیسا کہ دوسری آیت میں فرمایا '' ھُدًی لِّلنَّا سِ'' لیکن چونکہ اِنتفاع اس سے اہلِ تقوٰی کو ہوتا ہے اس لئے '' ھُدًی لِلّمُتَّقِیْنَ '' ارشاد ہوا جیسے کہتے ہیں بارش سبزہ کے لئے ہے یعنی منتفع ، اس سے سبزہ ہوتا ہے اگرچہ برستی کلر اور زمین بے گیاہ پر بھی ہے ۔ تقوٰی کے کئی معنٰی آتے ہیں ، نفس کو خوف کی چیز سے بچانا اور عرفِ شرع میں ممنوعات چھوڑ کر نفس کو گناہ سے بچانا ۔ حضرت ابنِ عباس رضی اللّٰہ تعالٰی عنہما نے فرمایا متّقی وہ ہے جو شرک وکبائر و فواحش سے بچے ۔ بعضوں نے کہا متّقی وہ ہے جو اپنے آپ کو دوسروں سے بہتر نہ سمجھے ۔ بعض کا قول ہے تقوٰی حرام چیزوں کا ترک اور فرائض کا ادا کرنا ہے ۔ بعض کے نزدیک معصیت پر اصرار اور طاعت پر غرور کا ترک تقوٰی ہے ۔ بعض نے کہا تقوٰی یہ ہے کہ تیرا مولٰی تجھے وہاں نہ پائے جہاں اس نے منع فرمایا ۔ ایک قول یہ ہے کہ تقوٰی حضور علیہ الصلٰوۃ والسلام اور صحابہ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہم کی پیروی کا نام ہے ۔ (خازن) یہ تمام معنی باہم مناسبت رکھتے ہیں اور مآل کے اعتبار سے ان میں کچھ مخالفت نہیں ۔ تقوٰی کے مراتب بہت ہیں عوام کا تقوٰی ایمان لا کر کُفر سے بچنا ، مُتوسّطین کا اوامر و نواہی کی اطاعت ، خواص کا ہر ایسی چیز کو چھوڑنا جو اللّٰہ تعالٰی سے غافل کرے ۔ (جمل)

حضرت مترجم قدس سرہ نے فرمایا تقوٰی سات قسم کا ہے ۔
(۱) کُفر سے بچنا یہ بفضلہ تعالٰی ہر مسلمان کو حاصل ہے (۲) بدمذہبی سے بچنا یہ ہر سنی کو نصیب ہے (۳) ہر کبیرہ سے بچنا (۴) صغائر سے بھی بچنا (۵) شبہات سے احتراز (۶) شہوات سے بچنا (۷) غیر کی طرف التفات سے بچنا یہ اخص الخواص کا منصب ہےاور قرآنِ عظیم ساتوں مرتبوں کا ہادی ہے


(ف5)

'' اَلَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ'' یہاں سے مُفْلِحُوْنَ '' تک آیتیں مومنین با اخلاص کے حق میں ہیں جو ظاہراً و باطناً ایماندار ہیں ۔ اس کے بعد دو آیتیں کھلے کافِروں کے حق میں ہیں جو ظاہراً و باطناً کافِر ہیں ۔ اس کے بعد '' وَ مِنَ النَّاسِ'' سے تیرہ آیتیں منافقین کے حق میں ہیں جو باطن میں کافِر ہیں اور اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کرتے ہیں ۔ (جمل)
غیب مصدر یا اسمِ فاعِل کے معنی میں ہے ، اس تقدیر پر غیب وہ ہے جو حواس و عقل سے بدیہی طور پر معلوم نہ ہو سکے ، اس کی دو قسمیں ہیں ، ایک وہ جس پر کوئی دلیل نہ ہو یہ علمِ غیب ذاتی ہے اور یہی مراد ہے آیۂ '' عِنْدَہ مَفَاتِحُ الْغَیْبِ لَا یَعْلَمُھَآ اِلَّا ھُوَ '' میں اور ان تمام آیات میں جن میں علمِ غیب کی غیرِ خدا سے نفی کی گئی ہے ، اس قِسم کا علمِ غیب یعنی ذاتی جس پر کوئی دلیل نہ ہو اللّٰہ تعالٰی کے ساتھ خاص ہے ، غیب کی دوسری قِسم وہ ہے جس پر دلیل ہو جیسے صانِعِ عالَم اور اس کی صفات اور نبوّات اور ان کے متعلقات احکام و شرائع و روزِ آخر اور اس کے احوال ، بَعث ، نشر ، حساب ، جزا وغیرہ کا علم جس پر دلیلیں قائم ہیں اور جو تعلیمِ الٰہی سے حاصل ہوتا ہے یہاں یہی مراد ہے ، اس دوسرے قسم کے غیوب جو ایمان سے علاقہ رکھتے ہیں ان کا علم و یقین ہر مومن کو حاصل ہے اگر نہ ہو آدمی مومن نہ ہو سکے اور اللّٰہ تعالٰی اپنے مقرب بندوں انبیاء و اولیاء پر جو غیوب کے دروازے کھولتا ہے وہ اسی قسم کا غیب ہے یا غیب معنی مصدری میں رکھا جائے اور غیب کا صلہ مومن بہ قرار دیا جائے یا باء کو متلبسین محذوف کے متعلق کر کے حال قرا ر دیا جائے ، پہلی صورت میں آیت کے معنی یہ ہوں گے جو بے دیکھے ایمان لائیں جیسا حضرت مترجم قدس سرہ نے ترجمہ کیا ہے ، دوسری صورت میں معنی یہ ہوں گے جو مؤمنین کے پسِ غیب ایمان لائیں یعنی ان کا ایمان منافقوں کی طرح مومنین کے دکھانے کے لئے نہ ہو بلکہ وہ مخلص ہوں ، غائب حاضر ہر حال میں مؤمن رہیں ۔ غیب کی تفسیر میں ایک قول یہ بھی ہے کہ غیب سے قلب یعنی دل مراد ہے ، اس صورت میں معنی یہ ہوں گے کہ وہ دل سے ایمان لائیں ۔ (جمل) ایمان جن چیزوں کی نسبت ہدایت و یقین سے معلوم ہے کہ یہ دینِ محمّدی سے ہیں ، ان سب کو ماننے اور دل سے تصدیق اور زبان سے اقرار کرنے کا نام ایمان صحیح ہے ، عمل ایمان میں داخل نہیں اسی لئے '' یُؤمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ'' تر جمۂ کنز الایمان : (جو بے دیکھے ایمان لائیں ) کے بعد '' یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ '' تر جمۂ کنز الایمان : (نماز قائم رکھیں ) فرمایا ۔

(ف6)

نماز کے قائم رکھنے سے یہ مراد ہے کہ اس پر مداومت کرتے ہیں اور ٹھیک وقتوں پر پابندی کے ساتھ اس کے ارکان پورے پورے ادا کرتے اور فرائض ، سُنَن ، مستحبات کی حفاظت کرتے ہیں ، کسی میں خلل نہیں آنے دیتے ، مفسدات و مکروہات سے اس کو بچاتے ہیں اور اس کے حقوق اچھی طرح ادا کرتے ہیں ۔ نماز کے حقوق دو طرح کے ہیں ایک ظاہری وہ تو یہی ہیں جو ذکر ہوئے ، دوسرے باطنی وہ خشوع اورحضوریعنی دل کو فارغ کر کے ہمہ تن بارگاہِ حق میں متوجہ ہو جانا اور عرض و نیاز و مناجات میں محویت پانا ۔

(ف7)

راہِ خدا میں خرچ کرنے سے یا زکٰوۃ مراد ہے جیسا دوسری جگہ فرمایا '' یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ وَ یُؤْتُوْنَ الزَّکوٰۃَ '' یا مطلق انفاق خواہ فرض و واجب ہو جیسے زکٰوۃ ، نذر ، اپنا اور اپنے اہل کا نفقہ وغیرہ ، خواہ مستحب جیسے صدقاتِ نافلہ ، اموات کا ایصالِ ثواب ۔
مسئلہ : گیارھویں ، فاتحہ، تیجہ ، چالیسواں وغیرہ بھی اس میں داخل ہیں کہ وہ سب صدقاتِ نافلہ ہیں اور قرآنِ پاک و کلمہ شریف کا پڑھنا ، نیکی کے ساتھ اور نیکی ملا کر اجر و ثواب بڑھاتا ہے ۔
مسئلہ : '' مِمَّا '' میں مِنْ تبعیضیہ اس طرف اشارہ کرتا ہے کہ انفاق میں اسراف ممنوع ہے یعنی انفاق خواہ اپنے نفس پر ہو یا اپنے اہل پر یا کسی اور پر ، اعتدال کے ساتھ ہو اسراف نہ ہونے پائے ۔
'' رَزَقْنَا ھُمْ '' کی تقدیم اور رزق کو اپنی طرف نسبت فرما کر ظاہر فرمایا کہ مال تمہارا پیدا کیا ہوا نہیں ، ہمارا عطا فرمایا ہوا ہے ، اس کو اگر ہمارے حکم سے ہماری راہ میں خرچ نہ کرو تو تم نہایت ہی بخیل ہو اور یہ بُخل نہایت قبیح

http://www.decentsociety.com/showthread.php?t=73
sirfaheem
sirfaheem
Registered
Registered

Male Number of posts : 6
Age : 37
Location : karachi
Registration date : 20.08.2010

Back to top Go down

Back to top

- Similar topics

 
Permissions in this forum:
You cannot reply to topics in this forum